Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر19

آئی ایم سوری پیشنٹ کا خون بہت بہہ گیا ہے ہم نے بلڈ بینک سے خون ارینج کر دیا ہے لیکن ابھی تک پیشنٹ کو ہوش نہیں آیا اگر جلدی ہوش نہ آیا تو جان کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں بتایا۔ ڈاکٹرز اور بھی کُچھ کہہ رہا تھا مگر کسی کی ہمت ہی نہ ہوئی آگے جانے کی۔۔۔ فرید کی نگاہ اُن پر پڑی تو اُس نے آہستہ سے ڈاکٹر سے کُچھ کہا اور وہ چلتا ہوا پاس آیا آپ درید صاحب کے ساتھ ہیں ؟ اس نے پوچھا۔ جج جی۔۔۔۔۔ شایان اٹکتے ہوئے بولا آئیے میرے ساتھ ۔۔۔ وہ ان کو اپنے ساتھ لیتا ڈاکٹر کے پاس آیا۔۔ کیسے ہوا ہےیہ سب؟؟ کیسا ہے میرا بیٹا؟؟؟ نادیہ بیگم نے بے تابی سے پوچھا۔ ان کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے اور ان کی بیک سائڈ پہ کافی چوٹیں آئیں جس کی وجہ سے بلڈ کافی ضائع ہو گیا ہے ۔۔۔ ڈاکٹر نے نادیہ بیگم کی بات کا جواب دیا۔۔۔ میرا اور درید کا بلڈ سیم ہے آپ میرا بلڈ لے لیجیے۔۔۔ مراد صاحب نے کہا۔۔ آئیے میرے ساتھ ۔۔۔ ڈاکٹر ان کو لے کے آئی سی یو کے اندر چلے گئے ۔ نادیہ بیگم وہیں رکھی چیئر پہ بیٹھ کے رونے لگیں ماما چپ ہو جائیں ٹھیک ہو جائے گا وہ آپ اللّٰ پاک سے دُعا کریں۔۔ شایان نے انہیں تسلی دیتے کہا تو نادیہ بیگم خدا پاک سے دعا کرنے لگیں۔۔ آپ جانتے ہیں درید کو وہ کہا سے ملا آپ کو؟؟؟ اب کے شایان نے فرید سے پوچھا۔۔۔ جی وہ باہر سڑک کنارے ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو میں اُن کو یہاں لے آیا۔۔ فرید نے بات بنائی۔۔ شُکریہ آپ کا بہت بہت۔۔۔۔ شایان فرید کا شُکر گُزار ہوا ۔۔ کوئی بات نہیں ۔ یہ اُن کا فون اور والٹ لے لیں اور اب میں چلتا ہوں درید صاحب کو ہوش آجائے تو اُن سے کہیے گا امام صاحب سے ضرور ملیں۔۔۔۔ وہ درید کا سامان دیتا ہوا بولا اور واپسی کے لیے مُڑ گیا ۔ شایان بھی وہیں ماں کے پاس بیٹھ کر درید کی صحت کی دُعا کرنے لگا دو گھنٹے بعد مراد صاحب واپس آگئے تو شایان ان کے لیے جوس وغیرہ لے آیا تا کہ کمزوری محسوس نہ ہو ۔ شایان نےافرحہ کو کال کر کے اطلاع دے دی تھی درید کے ایکسیڈنٹ کی اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ شاید وہ آج لیٹ گھر آئیں تو دھیان رکھنا اپنا اور ساوی کا ۔۔۔۔۔ وہ فون کاٹ کے دوبارہ اندر آکے نادیہ بیگم اور مراد صاحب کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔


ساوی ساوی دروازہ کھولو۔۔۔۔۔ افرحہ کو جب سے پتہ لگا تھا درید کے ایکسیڈنٹ کا وہ بہت پریشان ہو گئی تھی اور پھر ساوی کا خیال آتے ہی وہ ساوی کے کمرے کی طرف بھاگی تھی اور اب دستک پہ دستک دے رہی تھی مگر وہ دروازہ ہی نہیں کھول رہی تھی۔۔ بالآخر بیس منٹ بعد ساوی نے دروازہ کھول دیا تھا ۔۔ ساوی درید بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ۔۔۔۔ اُس کے دروازہ کھولتے ہی افرحہ نے اُسے بتایا ۔ اُس کی بات سُن کر وہ ویران آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگی جیسے اُسے سمجھ نہ آیا ہو کہ اُس نے کیا کہا ہے ۔۔۔ تم نے سُنا میں نے کیا کہا تمہارے درید کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔۔۔۔ افرحہ اُس کی طرف عجیب نظروں سے دیکھتی بولی۔۔۔ ؓجھے نیند آرہی ہے مجھے سونا ہے ۔۔۔۔ وہ کہتی دروازہ بند کرنے لگی کہ افرحہ نے ٹانگ آگے کر کے اُسے ایسا کرنے سے روکا ۔۔۔ ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔۔کیا ہوا ہے؟ تمہاری آنکھیں اتنی سُرخ اور سوجھی ہوئی کیوں ہیں ؟؟؟ تم روئی تھی؟؟؟ وہ اُس کا چہرہ اوپر اُٹھاتی ہوئی پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔۔۔ کُچھ نہیں میری طبیعت ٹھیک نہہں ہے بس اسی لیے اب مِن سو جاوں؟؟ سپاٹ لہجے میں جواب دیتی وہ اُس کے منہ پر دروازہ بند کر گئی۔۔۔۔۔ پیچھے وہ ہکّا بکّا کھڑی رہ گئی اُسے سمجھ نہ آیا آخر ساوی کو ہوا کیا ہے؟؟ درید کے ایکسیڈنٹ کی خبر سُن کر اُس کے چہرے پہ کوئی ری ایکشن نہیں تھا حالانکہ اُسے پریشان ہونا چاہیے تھا مگر ایسا کُچھ نہیں ہو تھا۔۔۔۔ وہ حیران پریشان سی واپس اپنے روم میں آگئی۔۔۔


دروازہ بند کرنے کے بعد وہ ڈریسنگ کے سامنے آکے کھڑی ہو گئی اور اپنے چہرے کو دیکھنے لگی جو بے حد سنجیدہ تھا۔ اُس نے اپنے دل کو ٹٹولا کہ آیا دل میں درید کے لیے کوئی احساس ہے؟ مگر وہاں سے کوئی جواب نہ آیا اُس کا دل خالی تھا بلکل سپاٹ سا ۔۔ اُسے درید کے لیے کُچھ محسوس نہ ہوا اُس کے ایکسیڈینٹ کی خبر سُن کر بھی اُسے زرا دُکھ نہ ہوا ہوتا بھی کیوں؟؟ جس انسان کو وہ اپنا محافظ سمجھتی تھی وہی اُس کی عزت کا لُٹیرا نکلا تھا۔۔۔ وہ واپس بستر پہ جا کے نیم دراز ہوگئی اور آنکھھیں موند گئی ۔۔۔


رات ہو گئی تھی ہر طرف سناٹا سا چھایا ہوا تھا درید کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا۔ اس خاموشی کو شایان کی آواز نے توڑا تھا ۔ ماما بابا آپ لوگ گھر جائیں میں یہیں ہوں درید کے پاس اُسے ہوش آئے تو میں اطلاع کر دوں گا ۔۔۔ وہ ان کی طبعیت کا خیال کرتے بولا ۔۔ نہیں میں نہیں جاوں گی اپنے بچے کو چھوڑ کر جانے کس حال میں ہے وہ ؟ نادیہ بیگم روتے ہوئے بولیں۔ ماما پلیز ایسے تو آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی اور یہاں پہ آپ کیا کریں گی ؟ میں ہوں نا یہاں۔۔۔۔۔ وہ انہیں سمجھاتا ہوا بولا ۔ شایان بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے ہمیں گھر چلنا چاہیے بچیاں بھی گھر پہ اکیلی ہیں ۔۔۔۔ مراد صاحب نے بھی شایان کی تائید کی۔ ان کی بات سمجھتیں نادیہ بیگم سر ہلا گئیں اور اُٹھ کھڑیں ہوئیں۔۔۔ مجھے ہر پل کی خبر دینا جیسے ہی درید کو ہوش آئے ہمیں بتا دینا ۔۔۔ وہ اسے ہدایت کرتیں ہوئیں بولیں ۔ جی ماما میں بتا دوں گا ابھی آپ جائیے۔۔۔۔ وہ انہیں تسلی دیتا بولا ۔ وہ دونوں اس کے سر پہ پیار کرتے گھر کے لیے نکل گئے


رات کے دو بج رہے تھے شایان باہر رکھی چئیر پر بیٹھا تھا جب ڈاکٹر اور نرس ہڑبڑی میں آئی سی یو میں چلے گئیے ۔۔۔ شایان بے چینی سے انہیں اندر جاتا دیکھ کر اِدھر سے اُدھر ٹہلنے لگا۔۔ آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر نرس کے ساتھ باہر آئے۔ پیشنٹ اب ٹھیک ہے کنڈیشن بھی سٹیبل ہے۔ ہم انہیں روم میں شفٹ کررہے ہیں پھر آپ مل لیجیے گا ۔۔۔ ڈاکٹر بتاتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔۔ اور شایان نے خدا کا شکر ادا کیا ۔۔ پھر درید کو روم میں شفٹ کر دیا گیا اُسے بیڈ پر الٹا لٹایا گیا تھا کہونکہ زخم اُس کی پشت پر تھے جس کی وجہ سے اُس سے کمر کے بل لیٹنا مشکل تھا۔ شایان بھی ساتھ ہی تھا اور اب اسکے پاس رکھی کرسی پر بیٹھا تھا ۔۔ کیسے ہو ؟ شایان نے پوچھا۔ ٹھیک ہوں۔ مختصر جواب دیا گیا۔ ایکسیڈینٹ کیسے ہوا؟ پھر سے سوال کیا۔ ایکسیڈنٹ ؟ وہ چونک اُٹھا۔ ہاں تمہارا ایکسیڈنٹ ہی ہوا ہے نا وہ ایک فرید نامی آدمی تمہیں لے کے آیا تھا ہسپتال اُسی نے ہمیں اطلاع دی اور میں اور ماما بابا آگئے ۔۔۔۔ شایان نے بتایا تو درید نے گہرا سانس بھرا مطلب ساوی نے کسی کو کُچھ نہیں بتایا تھا اور نہ فرید نے۔ نئے سرے اُسے دل میں اذیت کا احساس ہوا۔ بس دھیان نہیں گیا اور ہو گیا ایکسیڈنٹ۔۔۔ اُس نے سپاٹ آواز میں جواب دیا۔۔ اچھا تم آرام کرو میں ماما بابا کو بتا دوں وہ بہت پریشان تھے۔۔۔ وہ اُسے کہتا باہر نکل گیا۔ اُس کے جاتے ہی درید نے منہ تکیے میں بھینچ لیا اور اُس کے آنسو تکیے میں جزب ہونے لگے کون کہتا ہے مرد کو ندامت نہیں ہوتی وہ انا کے آگے جھکتے نہیں ۔۔۔ جب اپنے گناہ پر سچے دل سے پچھتاوا ہو اور خدا کا خوف بھی تو مرد اپنی انا تو کیا کبھی کبھی جان دینے سے بھی گُریز نہیں کرتے۔۔۔


نادیہ بیگم اور مراد صاحب رات کو ہی آنا چاہتے تھے مگر شایان نے منع کر دیا اور اب وہ صبح ہی صبح وہاں موجود تھے افرحہ نے آنا چاہا تھا مگر شایان نے کہا کہ درید جلدی گھر آجائے گا تب مل لینا جبکہ ساوی نے آنے سے صاف انکار کردیا تھا جس پہ سب کو ہی حیرت کا جھٹکا لگا تھا مگر اُس نے اپنی طبیعت خرابی کا کہہ کر ٹال دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس وقت نادیہ بیگم درید کے پاس بیڈ پر بیٹھی تھیں اور مراد صاحب اور شایان صوفے پر بییٹھے دونوں کا پیار دیکھ رہے تھے ۔۔ درید کا پٹیوں میں جکڑا وجود دیکھ کر ہر دوسرے لمحے اُن کی آنکھیں نم ہو رہیں تھیں مگر وہ خود پر ضبط کر رہیں تھیں۔ وہ اُن کی حالت سمجھ رہا تھا ماں سے بڑھ کر انہوں نے اُس کو پیار دیا تھا ہر آسائش فراہم کی تھی ہر خواہش بن کہے پوری کی تھی کبھی شایان اور اُس میں فرق نہیں کیا تھا اِسی لیے اب اُس کی یہ حالت دیکھ کے ان کا دل چھلنی ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اب تم آرام کرو میں یہیں ہوں ۔۔۔ وہ اُس کے پٹیوں میں جکڑی کمر پہ دھیرے سے ہاتھ پھیرتے بولیں۔ ۔مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔۔۔ اُس نے کہنا چاہا جو بات کرنی ہے اب گھر جا کے کرنا تمہاری ساری باتیں سُنوں گی۔۔۔۔ وہ لاڈ سے کہتیں اُس پہ چادر درست کرنے لگیں۔۔۔۔ وہ بھی فرمانبرداری سے سر ہلاتا آنکھیں موند گیا کمر کے بل لیٹ لیٹ کر اُسے تھکاوٹ ہو رہی تھی مگر مجبوری تھی۔۔۔۔۔


کیسی ہیں ماما ؟؟ وہ اپنے شوہر کے ساتھ آج اُن کے گھر آئی تھی اُسے پتہ تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہیں اِسی لیے وہ ضد کر کے اپنے شوہر کو ساتھ لائی تھی جو کبھی اِس گھر میں نہیں آنا چاہتا تھا جہاں اُسے نور کی آوازیں سُنائی دیتی تھیں۔۔ میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو بیٹا ؟ وہ اس کے وجود کو دیکھتی ہوئیں بولیں جہاں ایک ننھا سا وجود سانسیں لے رہا تھا ۔ میں بھی ٹھیک ہوں آپ اپنا خیال نہیں رکھتیں نہ دیکھیں کیا حال کر لیا ہے اپنا بھائی کے کان کھینچوں گی میں جنہوں نے میری ماما کا اچھے سے دھیان نہیں رکھا ۔۔۔۔۔۔ اُس نے خفگی سے اُن کی طرف دیکھتے کہا ۔ وہ تو بہت خیال رکھتا ہے بیٹا بس اپنے بچوں کو دیکھنے کو ترس گئی تھی اِسی لیے ایسی ہو گئی ہوں ۔۔۔۔ وہ بے بسی اُس کی طرف دیکھتیں بولیں جو آتے ساتھ ہی ایک جانب کھڑکی میں کھڑا ہو گیا تھا اور ایسے باہر جھانک رہا تھا جیسے اِس سے ضروری کوئی کام ہی نہ ہو۔۔۔۔ وہ مان جائیں گے آپ پریشان نہ ہوں وقتی ناراضگی ہے۔۔۔۔ وہ اُن کی نگاہوں کا ارتکاز دیکھتی انہیں تسلی دینے لگی۔۔۔ دُعا کرنا میرے مرنے سے پہلے ہی مان جائے ۔۔۔۔ وہ یاسیت سے گویا ہوئیں اور وہ جو بے نیاز بنا کھڑا تھا تڑپ کر اُن کی طرف بڑھا۔۔۔ ایسی باتیں مت کریں آپ ورنہ ہمیشہ کے لیے ناراض ہو جاوں گا آپ سے ۔۔۔۔۔ وہ اُن کے گلے لگتے بھیگے لہجے میں بولا ۔ تو مان جاو میری جان کیوں مجھے تڑپا رہے ہو۔۔۔۔ وہ رونے لگیں تھیں۔۔۔ آپ نے اچھا بھی تو نہیں کیا نہ وہ نم آنکھوں سے اُن کے آنسو صاف کرتے بولا ۔ جانتی ہوں میری غلطی تھی صرف میری ۔۔۔ کاش میں وقت کو واپس موڑ سکتی ۔۔۔۔ ان کے لہجے میں آس تھی ۔ آپ فکر مت کریں میں ڈھونڈ لوں گا اُسے پھر ہم۔پہلے کی طرح رہیں گے لیکن جب تک وہ اِس گھر میں واپس نہیں آئے گی میں بھی یہاں نہیں آوں گا ۔۔وہ اٹل لہجے میں بولتا باہر نکل گیا۔ آپ پریشان مت ہوں آپ کو تو پتہ ہے نہ اُن کا غصہ کیسا ہوتا ہے ایک پل میں ماشہ ایک پل میں تولا ۔۔ وہ نرمی سے بولی۔۔ تو وہ سر ہلا گئیں اب میں چلتی ہوں پھر آوں گی اور آپ اپنا خیال رکھا کریں میں بوا سے کہتی ہوں آپ کے خیال رکھنے کا ۔۔۔۔وہ اُن کا ماتھا چومتی اُن سے پیار لیتی باہر نکل گئی۔۔۔


ایک اور دن ہسپتال میں رکھنے کے بعد درید کو ڈسچارج کر دیا گیا تھا اور وہ آج ہی گھر واپس آیا تھا ڈاکٹر نے اُسے ریسٹ کرنے کی تلقین کی تھی۔۔۔ شادی میں بس چار دن رہ گئے تھے ایسے میں شایان نے شادی آگے کرنے کا کہا تھا مگر درید نے سہولت سے منع کر دیا۔ مجھے آپ سے کُچھ بات کرنی تھی چچی ماں ۔۔ اُس نے دھیرے سے کہا۔۔ ہاں کہو بیٹا میں سُن رہی ہوں ۔۔۔ وہ اُس کی طرف متوجہ ہوئیں ۔۔۔ وہ مم میں یہ کہہ رہا تھا میرا مطلب ہے کہ آپ سس ساوی کے لیے جو رشتہ آیا ہے اُس سے انکار کر دیں ۔۔۔ اُس نے اٹکتے ہوئے بات مکمل کی۔۔۔ مگر کیوں بیٹا۔۔۔۔ اندرونی خوشی کو دباتے وہ پریشانی سے گویا ہوئیں۔ کک کیونکہ میں سس ساوی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ وہ اُن سے نظریں چُراتا ہوا بولا ۔ سچ ؟؟ وہ خوشی سے پوچھ رہیں تھیں تو وہ الجھن سے اُنہیں دیکھنے لگا کہ وہ اتنا خوش کیوں ہیں؟؟ جج جی آ آپ کو کو ئی اعتراض نہیں ؟ وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا مجھے کیوں اعتراض ہو گا ؟ میں تو خود بھی یہی چاہتی تھی ہمیشہ ۔۔۔۔ وہ خوشی سے بھر پور لہجے میں بولیں۔۔ مطلب آپ ساوی کا رشتہ اشعر سے توڑ دیں گی ؟ اُس کی بات پر نادیہ بیگم الجھیں۔۔۔ اشعر سے رشتہ ؟؟ مگر ساوی کا رشتہ اشعر سے تو طےنہیں کیا تھا ۔۔۔۔انہوں نے اُس کی طرف دیکھتے کہا۔ تت تو پپ پھر کس سے کک کیا تھا ؟ اُن کی بات سن کے وہ بھونچکا ہو گیا۔ ارے میرے بھولے بیٹے!! ساوی کا رشتہ تو تم سے طے کیا گیا تھا وہ بھی بچپن سے تمہارا نام تو بچپن سے اُس کے نام کے آگے جڑ گیا تھا اور منگنی والی بات تمہیں اِس لیے نہیں بتائی گئی کہ تمہیں سرپرائز دیا جائے میں ماں ہوں تمہاری مجھے پتہ نہیں چلے گا میرا بچہ کیا چاہتا ہے ؟ اب تم آرام کرو میں چلتی ہوں کسی چیز کی ضرورت یو تو آواز دے دینا میں خاونج میں ہی ہوں۔۔۔۔ وہ اُسے بتاتی ہوئیں اُٹھ کھڑیں ہوئیں اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔۔۔ یہ کیا کہہ گئیں تھیں وہ؟ اِس کا مطلب اشعر نے اُس سے جھوٹ بولا تھا اور ساوی اُس نے بھی رشتے کے لیے ہامی بھری تھی اس کا مطلب ساوی نے میرے لیے ہاں کی تھی اور میں نے کیا کیا اُس اشعر کی باتوں پہ یقین کر لیا ۔۔ کیسے کر سکتا ہوں میں کیسے؟؟؟وہ اپنے بال نوچتا ہوا بولا ایک غلط فہمی کی بنا پر میں نے کیا کر دیا یااللّٰہ معاف کردے مجھے معاف کردے خدا !! میں کیسے اُس کا سامنا کروں گا کیسے وہ بستر پہ ہاتھ مارتا بولا کہ ہاتھ میں درد کی ٹھیس سی اُٹھی اور وہ کراہ کر رہ گیا ۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments